"ٹو دی پوائنٹ”


"ٹو دی پوائنٹ”


السلام و علیکم۔ کیا حال ہیں۔
وعلیکم السلام۔ جی الحمداللہ۔
کام کیسا چل رہا ہے۔
منشاءاللہ
اور سنائیں۔۔؟
کیا کر رہے ہیں۔۔؟
کیا کھایا، کیا پکایا۔۔؟
کیا نئی تازی ہے۔۔؟
دن کیسے گزر رہے ہیں۔۔؟
کیا مصروفیت ہے۔۔؟

ان سوالوں کے کوئی کیا جواب دے گا؟ کیا آپ کے پاس ضائع کرنے کو بہت وقت ہے جو اسطرح چیٹنگ میں گزارنا پسند کرتے ہیں؟ کیا آپ اتنے ہی فری رہتے ہیں؟ اگر آپ کوئی نوکری یا کاروبار کرتے ہیں یا ایک طالب علم ہیں تو کیا آپ اپنے فرائض میں خیانت کے مرتکب نہیں ہو رہے؟ کیا آپ محسوس کر سکتے ہیں کہ اپنے ساتھ ساتھ آپ دوسروں کا وقت ضائع کر رہے ہیں؟ کیا یہ آپکی زندگی کا مقصد ہے کہ بے وجہ باتوں کو طول دیتے پھریں؟ کیا آپ کا دل و دماغ ان فضولیات میں وقت گزاری پر ملال نہیں کرتا؟ کیا آپ ایسا کر کے ضمیری طور پر مطمئن رہتے ہیں؟ جو آپ کے آس پاس رہتے ہیں کیا آپ اُن کو نظر انداز نہیں کر رہے؟
منظر دیکھئیے: میں ابا حضور کی عدالت میں پیش ہوں، وہ مجھے کچھ بتانا اور سمجھانا چاہ رہے ہیں جبکہ میرا ایک ہاتھ کمر کے ساتھ موبائل لگا کر میسج ٹائپ کرنے میں مصروف ہے۔ کیا میں اس صورت میں اُنکی بات پر مکمل طور پر توجہ دے سکتا ہوں؟
شاید آپ میں سے بہت سے بخوبی متوجہ رہ بھی سکتے ہوں۔ چاہے آپ کسی صنف_نازک سے بات نہ بھی کر رہے ہوں، کسی اچھے دوست، کولیگ یا واقف سے رابطہ میں ہوں۔ لیکن کیا یہ اخلاقی طور پر بُری بات نہیں ہے کہ جو سامنے بیٹھا ہو، جو آپکے پاس ہو اور آپ اُسے نظر انداز کر کے کوسوں دور بیٹھے ہوئے شخص سے اسطرح رابطہ میں رہنے کی کوشش کریں کہ جیسے آپ اس کے بہت قریب ہیں جبکہ قریب رہنے والوں کو آپ یکسر نظر انداز کر چکے ہیں۔ اس صورت میں آپ جس شخص سے بات کر رہے ہوتے ہیں یقینا آپ اُن کی مصروفیت سے بھی واقف نہیں ہوتے اور عین ممکن ہے کہ دوسرا شخص اس طرح بات چیت کو بلکل پسند نہ کر رہا ہو اور آپکو مایوس نہ کرنے کی غرض سے لحاظ کرتے ہوئے مختصر جواب پر اکتفا کر رہا ہو جبکہ آپ لاشعوری میں اپنی ہڈ دھرمی پر قائم و دائم رہنا بھی دانشوری سجھ رہے ہوتے ہیں۔
ایک اور منظر دیکھئیے: میرے ایک قریب رہنے والے دوست مجھ سے رابطہ میں ہیں، کانوں میں ہینڈفری لگائے اونچی آواز میں گانے بھی سُن رہے ہیں۔ میں نہ چاہتے ہوئے بھی میسجز کے مختصر جواب دے رہا ہوں۔ اتنے میں ایک تصویر موصول ہوئی جس میں دروازہ ٹوٹا ہوا ہے اور گیلری میں آگ لگی ہوئی ہے، جہاں کھڑکیاں اور دروازے جل کر گر چُکے ہیں اور دیوار میں پیوست لکڑی کے فریموں میں آگ لگی ہوئی ہے۔ موصوف کی حاضر دماغی اور قابلیت میسج میں خوب واضح ہو رہی تھی لیکن اپنے گردو نواح میں وقوع پذیر ہونے والے حادثہ سے وہ تب واقف ہوئے جب اُنکے ہمسائے انہیں بچا کر نکالنے کیلئے دروازہ توڑ کر کمرہ کے اندر داخل ہوئے۔موٹر سائیکل پر سفر کرتے آپکا موبائل آپکے ہاتھ میں ہے۔ دوران کلاس بھی آپ یہی سیاپا پکڑے بیٹھے ہیں۔ کھانے کا ٹیبل ہو یا میٹنگ روم، حتاکہ واش روم میں بیٹھے ہوئے بھی چیٹنگ، چاہے بستر پر ہوں یا کسی کی میت پر، تدفین پر بھی موبائل ہاتھ میں اور میسجز کا آنا جانا جاری ہے،
خدا کا خوف کریں۔ ٹیکنالوجی کا صحیح اور مثبت استعمال کریں، اعتدال پسندی اختیار کریں۔ اپنے قیمتی وقت کی قدر کریں۔ مختصر اور مدعا کی بات کی جائے تو آپ کے ساتھ ساتھ دوسرے کا ٹائم بھی ضائع نہیں ہوتا۔ بہت سی غیر متوقع صورتحال کا سامنا ایسی ہی غلطیوں کی بنا پر ہوتا ہے۔ بہت ضروری ہے کہ ان چھوٹی چھوٹی باتوں کا خیال رکھا جائے۔ معاشرے میں بگاڑ کی بڑی وجہ قریب رہنے والوں کو نظر انداز کرنا بھی ہے۔

تبصرہ کریں

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.